حضرت موسی علیہ السلام کا واقعہ

  1.  حضرت ہارون علیہ السلام کا زمانہ پیدائش

یہ وہ زمانہ تھا جب شاہان مصر کا لقب ” فرعون ” ہو ا کرتا تھا۔ فراعنہ کے اکتیس (31) خاندان مصر پر حکمران رہے ۔ یہ دور تین ہزار سال قبل مسیح سےشروع ہوکر 332 قبل از مسیح تک کا ہے ۔





حضرت ہارون ؑ کے زمانہ کا فرعون ” عمیس ثانی ” کا بیٹا ” مرتفاح ” ہے ۔جس کا دور حکومت 1293 ق م سے 1186 ق م کا ہے ۔



ایک تحقیق کے مطابق مصری دارالآثار کے مصور اور اثری وحجری تحقیق کے بہت بڑے عالم “احمد یوسف احمد افندی نے ایک مضمون لکھا ہے ۔ جس کا خلاصہ نجاد نے قصص الانبیاء میں نقل کیا ہے ۔

” مصری آثارقدیمہ نے اس بات کا پتہ لگایا ہے کہ جس فرعون نے بنی اسرائیل کے ساتھ عداوت کا معاملہ کیا ا س نے بنی اسرائیل سے دو شہروں رعمیس اور فیثوم کی تعمیر میں خدمت کی ۔

اور کھدائی کے بعد ان دوشہروں کا پتہ لگ چکاہے ایک کتبہ سے ان کے نام فیثوم اور رعمیس معلوم ہوئے ۔ یہ دونوں شہر مصر کے بہترین حفاظتی قلعے تھے “

ان تمام باتوں کا مقصد یہ وہی حضرت موسیٰ ؑ اور ہارون ؑ کے زمانے کا فرعون “رعمیس دوم ” تھا جس میں آپ دونون پیغمبروں نے پرورش پائی ۔ رعمیس دوم اسی زمانے میں بہت بوڑھا ہوچکاتھا لہذا اس نے اپنی زندگی ہی میں اپنے بڑے بیٹے”مرنفتاح ” کو حکومت سونپ دی ، مرنفتاح ہی وہ فرعون ہے جس کو حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت ہارون ؑ نے اسلام کی دعوت دی یہ مصر کے حکمرانوں کا انیسواں ( 19 )خاندان تھا ۔

( بحوالہ قصص القرآن جلد اول )



فرعون کا خواب

فرعون نے ایک بھیانک خواب دیکھا جس کی تعبیر نجومیوں نے بتائی کہ ” تیری حکومت کا زوال ایک اسرائیلی لڑکے کے ہاتھ ہوگا” فرعون نے اس خوف سے یہ حکم دیا کہ ا سرائیلی لڑکوں کوقتل کردیاجائے اور لڑکیوں کو چھوڑڈیاجائے پھر اسی خوف سے کہ آئندہ اسی کی غلامی کون کرے گا ۔ حکم دیاکہ ایک سال لڑکوں کو زندہ رکھاجائے اوردوسرے سال ختم کردیاجائے ، چنانچہ جس زمانے میں بچوں کو چھوڑدینے کا حکم تھا اس زمانے میں حضرت ہارون علیہ السلام پیدا ہوئے ۔

قرآن میں ذکر

قرآن کریم میں حضرت ہارون علیہ السلام کا ذکر حضرت موسیٰ ؑ کے ساتھ بے شمار مقامات میں آیاہے ۔

خوش بیان آپ ؑ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے زیادہ تھے اور انہیں کی درخواست پر آپ ؑ کو پیغمبری عطا ہوئی ۔ تاکہ فرعون کے دربار میں تبلیغی تقریری پوری فصاحت کے ساتھ کرسکیں

وَوَهَبْنَا لَهٗٓ اِسْحٰقَ وَيَعْقُوْبَ ۭ كُلًّا هَدَيْنَا ۚ وَنُوْحًا هَدَيْنَا مِنْ قَبْلُ وَمِنْ ذُرِّيَّتِهٖ دَاوٗدَ وَسُلَيْمٰنَ وَاَيُّوْبَ وَيُوْسُفَ وَمُوْسٰي وَهٰرُوْنَ ۭوَكَذٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِيْنَ 84؀ۙ (سورۃا لانعام )

اور ہم نے ابراہیم کو اسحاق (جیسا بیٹا) اور یعقوب (جیسا پوتا) عطا کیا۔ (ان میں سے) ہر ایک کو اہم نے ہدایت دی، اور نوح کو ہم نے پہلے ہی ہدایت دی تھی، اور ان کی اولاد میں سے داؤد، سلیمان، ایوب، یوسف، موسیٰ اور ہارون کو بھی۔ اور اسی طرح ہم نیک کام کرنے والوں کو بدلہ دیتے ہیں۔

  1. وَلَقَدْ مَنَنَّا عَلٰي مُوْسٰى وَهٰرُوْنَ ١١٤ ؀ ( سورۃ الصفت )
  2. اور بیشک ہم نے موسیٰ اور ہارون پر بھی احسان کیا۔
  3. سَلٰمٌ عَلٰي مُوْسٰى وَهٰرُوْنَ ١٢0 ( سورۃ الصفت )
  4. (کہ وہ یہ کہا کریں کہ) سلام ہو موسیٰ اور ہارون پر !

حضرت ہارون علیہ السلام کےلیے نبوت کی سفارش :۔

جب طویٰ کی مقدس وادی میں حضرت موسیٰ ؑ نبوت سے سرفرازکیے جارہے تھے تو حضرت موسیٰ ؑ نے اللہ تعالی سے اپنے بھائی ھارون ؑ کو اپنا زور بازو بنائے اور نبوت عطا کرنے کی درخواست س کی ۔جو قبول کرلی گئی ۔ کیونکہ موسیٰ ؑکی زبان میں بچپن ہی سے ہکلا پن تھا آپ ؑ کو بولنے میں دشواری تھی جبکہ حضرت ہارون ؑ فطری فصاحت وبلاغت لسانی کے مالک تھے ۔ا س طرح ھارون ؑ کو بھی نبوت عطا ہوئی ۔

وَاجْعَلْ لِّيْ وَزِيْرًا مِّنْ اَهْلِيْ 29

اور میرے لیے میرے خاندان ہی کے ایک فرد کو مددگار مقرر کردیجیے۔

هٰرُوْنَ اَخِي 30

یعنی ہارون کو جو میرے بھائی ہیں۔

اشْدُدْ بِهٖٓ اَزْرِيْ 31؀

ان کے ذریعے میری طاقت مضبوط کردیجیے۔

وَاَشْرِكْهُ فِيْٓ اَمْرِيْ 32؀

اور ان کو میرا شریک کار بنا دیجیے۔

كَيْ نُسَبِّحَكَ كَثِيْرًا 33؀

تاکہ ہم کثرت سے آپ کی تسبیح کریں۔

قَالَ قَدْ اُوْتِيْتَ سُؤْلَكَ يٰمُوْسٰى 36؁

اللہ نے فرمایا : موسیٰ ! تم نے جو کچھ مانگا ہے تمہیں دے دیا گیا۔ ( سورہ طہٰ )

پھر دونوں بھائیوں کو فرعون کے پاس جانے کا حکم ہوا

اِذْهَبْ اَنْتَ وَاَخُوْكَ بِاٰيٰتِيْ وَلَا تَنِيَا فِيْ ذِكْرِيْ 42؀

تم اور تمہارا بھائی دونوں میری نشانیاں لے کر جاؤ، اور میرا ذکر کرنے میں سستی نہ کرنا۔ (١٩)

اِذْهَبَآ اِلٰى فِرْعَوْنَ اِنَّهٗ طَغٰى 43؀

دونوں فرعون کے پاس جاؤ، وہ حد سے آگے نکل چکا ہے۔

دونوں بھائی فرعون کے دربار پہنچے اور خدائی پیغام اس کو پہنچایا کہ اللہ وحدہ لاشرک لہ کی عبادت کرو اور بنی اسرائیل پر ظلم وستم نہ کرو مگر وہ نہ مانا۔ اور مزید سرکشی پر اترآیا ۔ حضرت موسیٰؑ نے اللہ تعالیٰ کے عطاکردہ معجزات اک ذکر کیا تا کہ حق وصداقت کو قبول کرے ۔ اس نے آپ ؑ کو جادوگر قرار دیا اور دربار کے بڑے بڑے جادوگروں کو جمع کر کے مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ مگر حق کے آگے باطل کی نہ چل سکی اور مقابلے کے بعد تمام جادوگروں نے حضرت موسیٰ ؑ کے حق میں فیصلہ دیا اور دعوت حق کو قبول کیا۔ جب فرعون نے دیکھا کہ جادوگر اسلام لاچکے ہیں اور تمام لوگ حضرت موسیٰؑ اور حضرت ہارون ؑ کا اچھے اوصاف کے ساتھ ذکر کررہے ہیں تو اس نے دھمکیاں دیں فرعون کے مظالم مزید بڑھ گئے تو اللہ نے موسیٰ ؑ کو وہاں سے نکل جانے کا حکم دیا

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

٧٢ شہدائے کربلا کے نام۔

دینی مقاصد کے لیے خواتین سے رابطہ رکھنے کے حوالے سے مفتی محمود اشرف عثمانی دامت برکاتہم کی فکر انگیز تحریر

ترکی نے بھی اسرائیل کو تسلیم کیا ہوا ہے؟